Sunday, 22 December 2024
img
تحقیقاتی اور ڈیجیٹل صحافت کی دنیا میں انقلابی قدم --- اس کی کوریج ، جس کی کوئی کوریج نہیں کرتا --- ظلم ، ناانصافی کے خلاف برسرِپیکار
img

نئی نسل کوتمباکو نوشی سے بچانےکیلئے ہمیں جنگی بنیادوں پرکام کرناہوگا:مقررین

اسلام آباد(محمدارشدسے)نئی نسل کوتمباکو نوشی سے بچانےکیلئے ہمیں جنگی بنیادوں پرکامکرناہوگا، تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں سے نوجوانوں کو ہلاکت خیزیوں میں  مبتلا کررہی ہے،ہرروز 1200 نئے بچےتمباکو نوشی شروع کررہے ہیں، اگرہم نے اسے قومی المیہ سمبھ کر جنگی بنیادوں پراس کےخلاف کام نہ کیاتو ہماری آنےوالی نسلوں کو اسکے تباہ کن نتایج بھگتنا پڑیں گے۔


یہ بات ماہرین صحت نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے زیراہتمام "نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کی طرف راغب کرنے کے لیے تمباکو کی صنعت کامارکیٹنگ کانیا طریقہ"کے موضوع پرمنعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوے کہی۔تقریب میں صحت  کے ماہرین،سول سوسائٹی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔تقریب  کی میزبانی پناہ کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے کی۔تقریب سے  خطاب کرتے ہوئے جناب ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ پناہ گزشتہ4 دہائیوں سے لوگوں میں دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے شعور اجاگرکر رہا ہے۔آگاہی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ،  پناہ قانون اور پالیسی سازوں کے ساتھ ملکردل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو ختم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانےکے لیے بھی کام۔کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن کی016 2  کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 8 لاکھ سے زیادہ اموات  دل اوراس سے متعلقہ امراض سے ہو رہی ہیں۔تمباکو نوشی دل کی بیماریوں کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے،پناہ نے ہر سطع پر اپنی آواز بلند کی ہے تا کہ نوجوانوں کوتمباکو کی ہلاکت خیزیوں سے بچائے لیکن تمباکو انڈسٹری نت نئے حربوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کواس لعنت کیطرف مائل کررہی ہے۔پناہ نےان وجوہات کو جاننے کیلئےایک ٹارگٹ سروےکیااس سروے کے نتائج چشم کشاہ تھے۔ پاکستان میں ہر روز 1200نئے بچے تمباکونوشی شروع کررہے ہیں۔تمباکو انڈسٹری کاخصوصی ہدف بچے ہیں۔ سکولوں کے اردگردبہت بڑی تعداد میں تمباکو کی مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں اورتمباکوکی ملٹی نیشنل کمپنیاں سکولوں کےقریب اپنی مصنوعات کی فروخت پر ذیادہ فوکس کرتی ہیں ،سکولوں کے آس پاس دکانوں میں تمباکو نوشی کی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے،دکاندار بچوں کو کھلے سیگریٹ فروخت کرتے ہیں تاکہ وہ بچے بھی سیگریٹ خرید سکیں جو پورا پیکٹ نہیں خرید سکتے۔


تمباکو کی مصنوعات کو ایسی جگہ رکھاجاتا ہے کے بچے انکی طرف متوجہ ہوں جیسے ٹافیوں اورچاکلیٹس کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے ملک کا مستقبل محفوظ بنانا ہے اور بچوں کو نشے کی اس لعنت سے محفوظ رکھنا ہے توحکومت کو اس طرف توجہ کرنی پڑھے گی اوراس قانون پرسختی سے عملدرامد یقینی بنانا ہوگاجس کے مطابق سکولوں سے 50 میٹر کے فاصلے تک تمباکو نوشی کی مصنوعات پر پابندی ہے،دکانوں میں ان مصنوعات کی تشہیر پر  اور کھلے سیگریٹ کی فروخت پر پابندی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی ٹی سی کے آرٹیکل 5 کی شق 3کے مطابق انڈسٹری کے لوگ قانون ساز اداروں کے لوگوں سے براہ راست نہیں مل سکتے تا کہ تمباکو کے متعلق پالیسیز کو انڈسٹری کے مفادات سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن پاکستان میں  تمباکو کمپنی کے مالکان کو پالیسی سازی کے ادارے میں نمائندگی حاصل ہے جوتمباکو نوشی سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے میں ایک رکاوٹ ہے۔


مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان نسل کو تمباکو نوشی کی ہلاکت خیزیوں سے بچانے کے لیے حکومت کو ہر ممکن اقدامات کرنے چاہییں تاکہ ہم آنے والی نسل کو ایک صحت مند پاکستان دے سکیں۔