تین براعظموں کے ماہرین پر مشتمل بین الاقوامی ویبنار نے تصادم یا نئی سرد جنگ کے کسی بھی تصور کو مسترد کردیا
Tweet Followپاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ''فرینڈز آف سلک روڈ'' سیریزویبینار کا انعقاد
سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور سینیٹر مشاہد حسین نے نئی سرد جنگ کے تصور کو مسترد کردیا
3 براعظموں کے ماہرین پر مشتمل بین الاقوامی ویبنار نے تصادم یا نئی سرد جنگ کے کسی بھی تصور کو مسترد کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی، بھوک، غربت اور وبائی امراض جیسے مشترکہ آزمائشوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعاون اور رابطہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ اس ویبینار کا انعقاد پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ نے اپنے فلیگ شپ 'فرینڈز آف سلک روڈ' سیریز کے تحت کیا تھا جس کا عنوان تھا "بعد از وبا عالمی منظر نامہ اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں بڑی طاقتوں کا مقابلہ" تھا۔اس میں پاکستان، چین، کمبوڈیا، سری لنکا، برطانیہ اور امریکہ کے مقررین نے شرکت کی۔
ویبنار کی صدارت سابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کی جبکہ سینیٹ کی دفاعی کمیٹی اور پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کلیدی تقریر کی۔اپنے افتتاحی کلمات میں ایمبیسڈر تہمینہ جنجوعہ، سابق پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے کہاکہ چین نے 800 ملین لوگوں کو غربت سے نکال کرحیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کو وباکے بعد کے منظر نامے میں گلوبل ساؤتھ میں اقتصادی مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک بہترین موقع قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی پالیسی حلقوں میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا اقتصادی بنیادوں کے بجائے اسٹریٹجک ہونے کے خدشات نے چین کی خوشحال کمیونٹی کی تعمیر کی عزم کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے چین کو تمام محاذوں پر محدود کرنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کوششوں کو قابلِ مزمت قرار دیا کیونکہ ان سینہ صرف گلوبل ساؤتھ بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی بڑے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس طرح کے عزائم ترقی کے سفر کو متاثر کرتے ہیں۔
اپنے کلیدی خطاب میں سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان ایک ا سٹریٹجک اہمیت کا حامل ملک ہے جہاں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں امریکی طاقت کا خاتمہ، چین کا پرامن عروج اور پاکستان کا سی پیک کے ذریعے علاقائی رابطوں کا مرکز بننے کی کوششوں کے ذریعے سے جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف رخ موڑنا شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں 42 سال کی جنگ کے بعدجس نے پاکستان کو براہ راست متاثر کیا ملک کسی نئے تنازع، تصادم یا سرد جنگ کا فریق نہیں بن سکتا کیونکہ رابطہ کاری اور تعاون وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح انہوں نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نئی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اس کے غیر متوقع نتائج جیسے خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔سینیٹر مشاہد حسین نے سی پیک کو فعال طور پر فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا جو کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا فلیگ شپ منصوبہ ہے اور انہوں نے اسے 21ویں صدی کا سب سے اہم سفارتی اور ترقیاتی اقدام قرار دیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام ایشیائی ممالک کسی بھی سرد جنگ سے دور رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اب بھی فوجی نقطہ نظر اور عزائم رکھتا ہے جبکہکواڈ اور آکوس اس کی واضح مثالیں ہیں اور عالمی نیٹو کا متلاشی ہے اس کے برعکس چین نے روابط اور علاقائی تعاونخاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے اقتصادی ثمرات کا حامل وڑن دیا ہے۔ اس میں 145 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔سری لنکا کے سابق بحریہ کے کمانڈر جیاناتھ کولمبیج نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو قرض کاجال قرار دینیکے تصور کو رد کیا۔ ان کے مطابق سری لنکا چین کااپنے غیر ملکی قرضوں کا 10فیصد سے بھی کم کامقروض ہے اور یہ 10فیصددراصل سری لنکا کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے کیونکہ اس نے ملک کے شہریوں کے لیے بہت زیادہ اقتصادی امکانات پیدا کیے ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو چین کے ملکی اقتصادی حالات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر زور دیا تاکہ دونوں ممالک اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پراجیکٹ کی ترقی کو ممکن بنا سکیں۔پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے کہا کہ بڑی طاقتوں کے مقابلے کے مضمرات خواہ ارادی ہوں یا غیر ارادیہم سب کو متاثر کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا اثر پاکستان کے متوسط طبقے پرپڑاہے۔انہوںنے کہاکہ ہمیں اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور اقتصادی اور غذائی تحفظ کو سب سے اہم عوامل کے طور پر دوبارہ ترجیح دینا چاہیے۔ ان کے مطابق سی پیک تعاون بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی پہچان بن چکا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران یہ ایک اہم اقدام ثابت ہوا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی اتحاد ان کے مضبوط مراسم کا مظہرہیجس میں ثقافتی اور تعلیمی تبادلے شامل ہیں اور چین میں 20,000 پاکستانی طلباء زیر تعلیم ہیں۔کمبوڈیا کے کمیشن برائے خارجہ امور، بین الاقوامی تعاون، میڈیا اور اطلاعات کے قومی اسمبلی کے چیئرمین سوس یارا نے کہا کہ عالمی سطح پر غیر یقینی صورتحال کے سبب معیشتوں کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ کمبوڈیا جیسے چھوٹے ممالک کو اقتصادی خوشحالی کے حصول میں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کمبوڈیا فریقین کے انتخاب میں دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ وہ خود کو سب کا دوست اور کسی کا دشمن نہیں سمجھتا۔ انہوں نے کہا کہ نیا عالمی نظام جامع، پائیدار اور لچکدار ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بی آر آئی تعاون کا ایک پلیٹ فارم ہے کیونکہ یہ بہت سارے مواقع فراہم کرتا ہے جس میں انفراسٹرکچر اپ گریڈ اور پارٹنر ممالک کی معیشتوں کے استحکام کے مواقع شامل ہیں۔چین کی رینمن یونیورسٹی کے چونگ یانگ انسٹیٹیوٹ فار فنانشل اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈین پروفیسر وانگ وین نے کہا کہ امریکہ تائیوان میں تنازعہ شروع کرنے کے لیے یوکرین کے بحران کی نقل تیار کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے اہم مفادات پر امریکی حملے چین کو نہ صرف چین بلکہ پورے خطے میں اقتصادی خوشحالی کے اپنے حتمی مقصد کو حاصل کرنے سے نہیں روکیں گے۔ انہوں نے امریکہ کی سرد جنگ کی ذہنیت کی مذمت کی اور محاذ آرائی کے بجائے تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ چین تجارتی جنگوں، نیٹو کی بین الاقوامیت، دی فائیو آئیز یا کواڈ جیسی امریکی اشتعال انگیزیوں سے خوفزدہ نہیں ہوگا اور اپنی قومی خودمختاری کو درپیش کسی بھی چیلنج کا فعال طور پر جواب دے گا۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ چین 2023 تک دنیا کی سب سے بڑی صارف منڈی بن جائے گا۔ اس سے ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی ترقی کے مواقع فراہم ہوں گے۔فرینڈز آف سوشلسٹ چائنا کے شریک ایڈیٹر مسٹر کیتھ بینیٹ نے کہا کہ 31 سال قبل دیوار برلن کے گرنے کے بعدمغرب کے لوگوں نے امید ظاہر کی کہ گلوبل ساؤتھ میں جدید جمہوری اقدار کی فتح ہو گی جس کے نتیجے میں اقتصادی کامیابی حاصل ہو گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا. روس کے ساتھ ایک شکست خوردہ ملک کے طور پر سلوک کیا گیا اور نیٹو کے کنٹینمنٹ کے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ ایسے ماحول میں انہوں نے کہا چین کی تعمیر و ترقی حیرت انگیز رہی ہیاور ملک عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہییہ خواب صدر شی جن پنگ نے دیکھا تھا۔ انہوں نے سی پیک پر پاکستان اور چین کے تعاون کو بھی سراہا اور دیگر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ممالک سے بھی اس کی پیروی کرنے پر زور دیا۔