عنصر عباس: نا ممکن کو ممکن کرنے والا صحافی..............تحریر۔ محمد فضل الرحمان.
Tweet Followتنبیہ: اس رپورٹ میں خودکش حملے کی تفصیلات گراں ہو سکتی ہیں۔
یہ دوہزار آٹھ کی بات ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ عروج پر تھی۔ خیبر پختونخوا کے علاقے دہشت گردی کی جنگ میں ٹارگٹ پر تھے۔ سینکڑوں خودکش حملے ہو چکے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ جاں بحق ہو چکے تھے جبکہ انگنت لوگ زخمی تھے جن کے اعضاء کٹ چکے تھے اور زندہ رہنے والوں کی اور ان سے منسلک افراد کی زندگی بھی ہمیشہ کے لیے بدل چکی تھی۔ اسی سال انیس اگست کو ایسا ہی ایک خودکش حملہ ہوا جس میں ایک ہی خاندان کے اکیس افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ مقامی صحافی عنصر عباس کا خاندان تھا۔ جبکہ عنصر عباس شدید زخمی ہوئے۔ اس روز ٹیچنگ ہیڈکوارٹر ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں خودکش حملہ ہوا تھا۔
عنصر عباس کی مکمل کہانی اور خودکش حملے کے بعد کی روداد پڑھنے سے پہلے ، آپ کا یہ جاننا ضروری ہے کہ حالیہ ورلڈ پریس ٖفریڈم انڈیکس دوہزار بائیس نے نشاندہی کی ہے کہ دنیا کے ایک سو اسی ممالک میں پاکستان کا نمبر ایک سو ستاون ہے یعنی 180 ممالک میں پاکستان صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے 157 نمبر پر آگیا ہے۔ یہ رپورٹ ہر سال پیرس میں قائم میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈر (RSF) جاری کرتا ہے۔ 2021 میں، پاکستان اسی ادارے کی فہرست میں 145ویں نمبر پر تھا۔
پاکستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری دہشت گردی کی جنگ اور اس سے وابستہ حالات و واقعات کی وجہ سے یہاں صحافی غیر محفوظ ہیں۔
عنصر عباس پاکستان کا وہ صحافی ہے جو خودکش حملہ میں دونوں بازوں کے گنوا دینے کے بعد بھی عزم وہمت کی مثال قائم کیئے صحافت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں لکھنا میرا شوق تھا اور اب عوامی آواز بن کر صحافت کرنا میرا مشن بن گیا ہے۔
دوہزار چھ میں گومل یونیورسٹی ، ڈیرہ سماعیل خان سے صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بطور صحافی اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے وھاں موجود تھے۔ ایک بااثر شخص کی ٹارگٹ قتل کے بعد عنصر اور ان کے خاندان کے افراد ہسپتال میں تھے جب ایک خودکش حملے میں تقریباً پینتس افراد جاں بحق ہوئے۔
عنصر عباس بتاتے ہیں کہ" ہم دو صحافی دوست اپنے علاقہ چاہ سید منور میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جانے کی اطلاع ملی۔ اسی اطلاع پر میں ہسپتال روانہ ہوگیا جہاں پہنچ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ٹارگٹ کلنگ میں شدید زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہونے والے میرے قریبی عزیز سید باسط گیلانی تھے جو یوٹیلیٹی سٹور میں ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے کہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔ اسی دوران علاقہ اور خاندان کے دیگر افراد ہسپتال پہنچنا شروع ہوگئے جس میں دیگر صحافی اور پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ ابھی میت کو گھر منتقل کرنے کی باتیں ہورہی تھیں کہ زور دار دھماکہ کی آواز آئی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھوڑی دیر بعد جب میرے ہوش بحال ہوئے تو میرے ارد گرد انسانی اعضا اور خون ہی خون تھا آہ و بکا تھی کہ الاامان۔ میں نے ہاتھ کا سہارا لیکر اٹھنے کی کوشش کی تو زمین سے میرا کندھا جاٹکرایا کیونکہ میرے سامنے موجود انسانی اعضاء میں میرے اپنے بازو بھی شامل تھے۔ میں بے ہوش ہوگیا ۔ کچھ معلوم نہیں کتنے دیر بعد ہوش آیا مگر جب آنکھ کھولی تو خود کو پٹیوں میں جکڑا پایا ۔ خاندان کے چند افراد اور چند دوستوں کے چہرے سامنےافسردہ کھڑے نظر آرہے تھے۔"
عنصر عباس کے قریبی دوستوں میں ذیشان قاسم بلوچ بھی شامل ہیں وہ بتاتے ہیں کہ عنصر عباس اور وہ سکول میں کلاس فیلوز تھے کالج لائف الگ تھی تاہم یونیورسٹی میں وہ پھر اکھٹے ہو گئے۔ان کا کہنا ہے کہ عنصر سکول سے لیکر یونیورسٹی تک ایک ہنس مکھ، خوش مزاج اور زندہ دل طبعیت کا مالک تھا۔ یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی ادبی سوسائیٹی کی سرگرمیوں کا وہی انچارج تھا۔ اس کی لکھائی بہت خوبصورت تھی۔ اس کی لکھائی کی وجہ سے اس کے لکھے نوٹس ، کلاس میں بہت مقبول تھے۔ عنصر کو لکھنے لکھانے سے صحافت سے عشق تھا۔"
جب خودکش حملے کی اطلاع ملی تو یاد کرتے ہیں کہ یہ بہت دردناک خبر تھی۔ ڈیرہ میں عنصر کا علاج ایک حد تک ہو ا پھر اسے بھکر ریفر کیا گیا تو ہم دوست وہاں پہنچے بھکر ہسپتال میں ہی ان کے بازوں کو دوبارہ بحالی کے لیئے ناممکن قرار دیکر مزید علاج کے لیئے پمزPIMS اسلام آباد ریفر کردیا گیا۔
عنصر عباس ماضی کے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب ان کو پمز منتقل کیا گیا تو انہیں علم ہوا کہ خود کش حملہ میں شہید ہونے والوں میں اکیس افراد ان کے اپنے ہی خاندان کے تھے۔ "میرا جسم زخموں سے چور تھا۔ میں پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ حرکت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ چھ ماہ مسلسل پمز میں زیر علاج رہنے کے دوران میرے پچاس کے قریب مختلف آپریشن ہوئے ۔ جب مجھے ہسپتال کے بستر سے اٹھا کر گھر لایا گیا تو میں حرکت کے قابل نہیں تھا۔"
ذیشان قاسم بلوچ کہتے ہیں جب وہ پمز ہسپتال گئے تو عنصر کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے تھے۔ انکا پیٹ چاک تھا کیونکہ بارود کے اثرات کے باعث انکا پیٹ کھلا رکھنا ضروری تھا۔ اس کو دیکھ کر ہم چھپ چھپ کے روتے تھے ۔اور جب ڈاکٹرز سے استفسار کرتے تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ عنصر کی زندگی کی سانسیں بحال رہ جائیں تو بھی یہ ایک معجزہ ہوگا۔
"کلاس میں سب سے خوبصورت ہینڈ رائٹنگ کی وجہ سے ہم اسکے لکھے نوٹس کی کاپیاں کراتے۔ صحافت سے اسکو عشق تھا مگر اب ہمارے سامنے جو عنصر تھا وہ دونوں بازوں سے محروم اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے محروم عنصر تھا اور ہمیں لگتا تھا کہ یہ شخص اب ذندگی سے مایوس ہوجائے گا ۔ مگر اس نوجوان نے ہم سب کو حیران کردیا "، ذیشان قاسم نے بتایا۔
عنصر عباس خود بتاتے ہیں کہ ان کے والد سید مظفر عباس ایڈوکیٹ کی شخصیت ان کے لیے مثالی تھی۔ لکھنے لکھانے میں انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ "ہسپتال سے گھر آنے کے بعد میں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیئے فزیو تھراپسٹ کی خدمات حاصل کیں۔ جلد ہی میں چلنے کے قابل ہوا میرے پاؤں حرکت کے قابل ہوئے تو میں نے کمپیوٹر کا keyboardکی بورڈ سنبھالا اور پیروں کی انگلیوں سے کی بورڈ استعمال کرنے کی کوشش شروع کی۔ شروع میں بہت مشکل ہوتی تھی مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ سٹوریز ٹائپ کرنا اور لکھنا شروع کردیا ۔ کپڑے پہننے، کھانا کھانے اور پانی پینے کے جیسے ہر عمل میں اہل خانہ اور دوست احباب مدد کرتےتھے۔ اسی دوران میں نے سرکاری صحافتی ادارہ میں ملازمت کا آغاز کیا۔ اب اس کے لیئے باقائدہ رپورٹنگ کرتا ہوں۔پیروں کی انگلیوں سے رپورٹ ٹائپ کرکے ادارے کو بھجواتا ہوں میں نے ماضی کو فراموش کرکے مستقبل پر توجہ دی۔ اس کے ساتھ میں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کچھ سال قبل پولیٹیکل سائنس میں بھی ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ میں نے شادی بھی کی خدا کے فضل و کرم سے میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی ہے اور میں سب سے یہی کہتا ہوں مایوسی کفر ہے کیونکہ میں بذات خود ہمت انساں مدد خدا کی میں عملی تصویر ہوں۔"