Wednesday, 24 April 2024
img
تحقیقاتی اور ڈیجیٹل صحافت کی دنیا میں انقلابی قدم --- اس کی کوریج ، جس کی کوئی کوریج نہیں کرتا --- ظلم ، ناانصافی کے خلاف برسرِپیکار
img

شوگری ڈرنکس ایک میٹھا زہرہے... موٹاپا صحت کیلئےایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے.......تحریر ثناءاللہ

ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق دنیابھر میں 1.6ارب بالغ افراد کا وزن زیادہ ہے اور کم ازکم 400 ملین موٹے ہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق زیادہ وزن اور موٹاپادل اور اس سے متعلقہ بیماریوں،ہائی بلڈپریشر، ٹائپ 2 ذیابیطس گردوں اورکینسر کی کچھ اقسام کی ایک بڑی وجہ ہے، پاکستان کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں، پاکستان میں 41.3 فیصد بالغ افراد موٹے یا زیادہ وزن اور 37فیصد ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں،تولیدی عمر کی خواتین میں زیادہ وزن اور موٹاپا 2011 سے 2018 تک 28 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد ہو گیا ہے،اس عرصے میں 5 سال سے کم عمر بچوں میں موٹاپے کی شرع دوگناہوگئی ہےجو ٹائپ 2 ذیابیطس کی ایک بڑی وجہ ہے۔


انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کی رپورٹ برائے 2021 تشویشناک اعدادوشمارظاہر کرتی ہےکہ پاکستان 3 کرڑ 30 لاکھ  سے زیادہ کیسز کے ساتھ دنیابھر میں ٹائپ 2 ذیابیطس کاتیسراملک بن گیاہےاور صرف دو سالوں میں یہ تعداد1کروڑ 92 لاکھ سے 3 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچی ہے جس تیزی سے اس مرض میں اضافہ ہواہےاسکے مطابق پاکستان سب سے زیادہ تیزی سے زیابیطس میں اضافہ ہونے والادنیا کا پہلاملک بن گیاہے۔ڈبلیو ایچ اوکے مطابق نان کمیونیکیبل ڈیزیز(NCDS) کیوجہ سے پاکستان میں 2016 میں 8لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں اور ان میں 4 لاکھ سے زیادہ اموات کیوجہ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیاں ہیں۔ذیابیطس کی وجہ سے روزانہ 1100جانیں ضائع ہوتی ہیں اگران بیماریوں پر ہونےوالے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو2015 میں موٹاپے کی لاگت کا تخمینہ 428 ارب پاکستانی روپے تھااور 2021 میں ذیابیطس پر ہونےوالےاخراجات 2640 ملین امریکی ڈالر سے  زیادہ تھے۔ہم کیوں کہتے ہیں شوگری ڈرنکس ایک میٹھا زہرہیں۔ماہرین صحت کے مطابق(NCD )یعنی موٹاپے، ذیابیطس،دل  گردوں اور کئی قسم کے کینسر کی ایک بڑی وجہ میٹھے کازیادہ استعمال ہےجو میٹھے مشروبات کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ میٹھے مشروبات کی 250 ملی لیٹرکی ایک بوتل میں 7سے 9 چمچ چینی موجود ہوتی ہے یہ چینی جسم کو 150کیلوریز فراہم کرتی ہیں لیکن ان میں کوئی غذائی اجزاء نہیں ہوتے۔اس کے استعمال کےبعد آپ پیٹ بھرا ہوا محسوس نہیں کرتے جیسے آپ ٹھوس غذا کے بعد محسوس کرتے ہیں۔ اس سے وزن بڑھنےکا خطرہ بڑھ جاتا ہے اورساتھ ساتھ ٹائپ ٹوذیابیطس،امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر اوردیگر امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔


مزید برآں،میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال قبل از وقت موت کےخطرے کو بڑھا دیتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 15 سالوں میں چینی والے مشروبات کے گھریلو استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔یہ آنکھیں کھول دینے والے تشویش ناک حقائق اور اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہم انتہائی گھمبیربحران جیسی صورتحال سے دوچار ہیں اوران حالات سے نمٹنےکیلئےہمیں جنگی بنیادوں پرکام کرنا ہوگا ورنہ ہمارا صحت عامہ کا نظام تباہ ہو جائے گا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دنیا نے اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا اور ہم کس طرح دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا کراپنے ملک کو اس بحرانی صورتحال سے بچا سکتے ہیں۔دنیا نے جن طریقوں سے ان مشروبات کے استعمال میں کمی لاکراپنے ملک میں بیماریوں میں کمی لائی ان میں چند آزمودہ طریقوں میں سب سے پہلا اورموثرہتھیاران پرٹیکس میں اضافہ ہے،اسکے ساتھ ساتھ ان پر مارکیٹنگ پر پابندی، سکول فوڈ پالیسی اور front of pack labelling شامل ہیں اگرصرف ٹیکس کی بات کی جائے تو دنیا کے 50 سے زیادہ ممالک نےمیٹھے مشروبات پرٹیکس میں اضافہ کرکے انکے استعمال میں کمی لائی جس سے نہ صرف وہاں ان بیماریوں میں کمی آئی بلکہ اضافی ٹیکس سے ان کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوا۔  




سعودی عرب خلیج کا پہلا ملک تھا جس نے2017 میں میٹھے مشروبات پر 50فیصد اور انرجی ڈرنکس پر  100فیصدٹیکس میں اضافہ کیا اور2018 میں ان پر 5فیصد وہلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا تو2016 کے مقابلے میں 2018 میں انرجی ڈرنکس کی ٖفروخت میں 58فیصد اور سوڈا کی فروخت میں41فیصدکمی واقع ہوئی،فلپائن نے میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھاکر نہ صرف بیماریاں کم کی بلکہ40 ملین ڈالر اضافی ریونیو  بھی حاصل کیا جسے صحت عامہ کے پروگراموں پرخرچ کیا گیا۔ 

پاکستان میں ان مشروبات پرٹیکس کی شرع علاقےکے دیگر ممالک سے بہت کم ہے،ہندوستان میں ان پر40 فیصدٹیکس ہے،مالدیپ میں ایک لیٹرمشروب پرہیلتھ لیوی 2.18 ڈالر ہے جو پاکستانی روپوؤں میں 335 روپے بنتی ہے،اسی طرح قطر  اور بحرین نے انرجی ڈرنکس پر100 فیصداورسوڈا پر50فیصدٹیکس میں اضافہ کیاجس سےانکےاستعمال میں نمایاں کمی آئی جبکہ پاکستان میں کاربونیٹڈ واٹرپرصرف13فیصد فیڈرل ایکسایز ڈیوٹی (FED)  اور 17فیصدسیلز ٹیکس ہےجبکہ جوسز پرFED بلکل نہیں ہے۔ان مضرصحت چیزوں پر ٹیکس لگاکر پاکستان ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں نمایاں کمی کے سا تھ ساتھ سالانہ اضافی ریونیو بھی حاصل کرسکتا ہے جسے صحت عامہ کے پروگراموں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔اس طرح یہ ایک win-win والی صورتحال ہے یعنی بیماریوں میں بھی کمی اور حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ضروریات زندگی پرٹیکس لگانے کے بجائےان مضرصحت چیزوں پر ٹیکس بڑھایاجائے اورانڈسٹری کے مفادات کی بجائےعوام کی صحت کا خیال کیاجائے۔