امریکی مراسلہ ، سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے : ڈی جی آئی ایس پی آرکا ایک بار پھر دو ٹوک بیان
Tweet FollowFile Photo
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے امریکی مراسلے کے حوالے سے کہاہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں میں تینوں سروسز چیفس موجود تھے جہاں شرکاء کو ایجنسیز کی طرف سے واضح طور پر آگاہ کیا گیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی اور اس کے کوئی شواہدبھی نہیں ۔
منگل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف کا چین کا دورہ بہت اہم تھا، جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف تھے جو صدر شی چن پنگ سے ملے، پاکستان کے چین کے ساتھ سٹرٹیجک اور تعلقات انتہائی اہم ہیں، چین نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا، اس دورے کا مقصد دفاعی سمیت دیگر تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔ چین کے ساتھ تعلقات خطے میں امن کے لیے بہت اہم ہیں۔ چین نے پاکستان کی دفاعی قوت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آرمی چیف کا دورہ اسی سلسلے کی اہم کڑی تھی۔چین کے ساتھ دفاعی تعلقات کی مضبوطی اور ملٹری ڈپلومیسی کو مستحکم کرنے میں دورہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور خطے کے حالات کے مطابق ہی یہ دورہ بڑا اہم ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کی سکیورٹی فوج کودی گئی ہے۔ سی پیک سکیورٹی سے متعلق کسی قسم کی کمی نہیں آئی، حکومتی سطح پر سی پیک پر کام ہو رہا ہے، اس کی سکیورٹی پر خصوصی طور پر کام کیا جا رہا ہے، اس پر کوئی کمی نہیں آنے دی، پاکستان اور چین کی حکومتوں کی سطح پر رابطوں میں پیشرفت ہو رہی ہے، سپہ سالار کے دورہ چین کے دوران متعدد میمورنڈم پر دستخط ہوئے۔انہوں نے کہا کہ دورہ کے موقع پر ایپکس کمیٹی میٹنگ میں پاکستان اور چین کے دفاعی معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔ ایپکس کمیٹی میں چیف آف آرمی سٹاف چین کے سنٹرل ملٹری کے وائس چیئرمین شامل تھے جب کہ کمیٹی کی سربراہی چین کے صدر شی چن پنگ نے کی ۔آرمی چیف کے دورہ کے موقع پر فوجی ٹریننگ ، ٹیکنالوجی ، کائونٹر ٹیرررازم اور خاص طور پر ٹرائی سروسز کو بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی جب کہ آرمی چیف کے دورہ چین کے دور رس اثرات ہونگے جو بڑی جلد نظر آنے شروع ہو جائینگے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ جب بھی ملک میں سالانہ بجٹ آنے لگتا ہے تو دفاعی بجٹ پر بحث شروع ہو جاتی ہے ۔ جب کہ ہمیں اپنے ہمسایہ ملک بھارت کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔ بھارت کا دفاعی بجٹ بڑھ رہا ہے، دشمن کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے، ہمارا ماضی بھی بتاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ وہاں سے چیلنجز رہے ہیں۔ اس وقت ہندوستان کی 13 لاکھ فوج ہے جبکہ ہماری فوج ساڑھے پانچ لاکھ ہے، اس وقت 50 فیصد آرمی مشرقی بارڈر پر تعینات ہے جبکہ 40 فیصد فوج مغربی سرحد پر تعینات ہے، باقی بچ جانے والی فوج کنٹونمنٹ اور کبھی داخلی سلامتی پر اپنا کردار ادا کرتی ہے۔بھارت نے ہمیشہ دفاعی بجٹ کو بڑھایاہے جب کہ پاکستان نے 2020 سے پاکستانی افواج نے اپنے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، مہنگائی کے تناسب سے دفاعی بجٹ کم ہوا ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی پرسنٹ ایج میں نیچے جا رہا ہے۔ ہم نے اپنی صلاحیتوں میں کمی نہیں آنے دی، اس وقت ہم نے ڈیفنس بجٹ 100 ارب روپے کم کیا ہے،
آرمی چیف نے ہدایت دی ہے مشقوں کو بڑے پیمانوں کے بجائے چھوٹے پیمانے پر کر لیا جائے، چھوٹی مشقوں سے بچت ہو گی، ہم نے اپنی غیر ضروری نقل و حرکت کم کر دی گئی ہے، افواج میں یوٹیلٹی بلز، ڈیزل، پٹرول کی مد میں بچت کی جا رہی ہے۔ پچھلے سال کورونا کی مد میں جو رقم ملی اس میں سے 6 ارب واپس کیا تھا۔ عسکری سازو سامان میں بھی ہم نے ساڑھے تین ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروا دیئے ہیں۔ ہمارے رفاعی ادارے فوجی فانڈیشن گزشتہ سال 150 ارب روپے ٹیکس جمع کروائے۔ آرمی ویلیفئر ٹرسٹ نے 2.2 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے امریکی سازش سے متعلق سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے دیئے گئے بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی واضح کر چکا ہوں، قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں عسکری قیادت موجود تھی اور وہاں بتایا گیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی اور اس کے شواہد بھی نہیں ہیں، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات یہی کام کرتی ہیں، اور ہمارے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملانا ہماراکام ہے، سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشیدکے بیان پر جواب میں انہوں نے کہا قومی سلامتی میٹنگ میں کسی نے نہیں کہا کہ سازش ہوئی، انہوں نے کہاکہ نہ کسی قسم کی سازش ہوئی اور نہ ہی ا س حوالے سے شواہد ملے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ این ایس سی اجلاس کے دوران تینوں سروسز چیفس بھی موجود تھے۔اس دوران شرکا کو ایجنسیز کی طرف سے آگاہ کیا گیاکہ کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ہیں۔ ایسا کچھ نہیں، امریکی مراسلے کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ این ایس سی کی میٹنگ میں واضح بتا دیا گیاتھا کہ سازش کے شواہد نہیں ملے ۔
سازش اور مداخلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اتنا کہنا چاہوں گا یہ سفارتی لفظ ہے، ڈپلومیٹکلی اس طرح کی چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے، مجھے یقین ہے کہ سفارتکار ہی اس کو بہتر طریقے سے آگاہ کر سکتے ہیں، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے جو ایکشن لیا گیا وہ سفارتی طور پر لیا گیا ہے۔ ہماری طرف سے بہت کلیئر طور پر بتایا گیا تھا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔انہوں نے کہاکہ پچھلے کچھ عرصے سے افواج پاکستان اور لیڈر شپ کو پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اپنی رائے کا حق سب کو ہے لیکن جھوٹ کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔حقائق کو مسخ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ۔
میجرجنرل بابر افتخار نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاک فوج کے کردار کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس چل رہا ہے، اس اجلاس کے بارے میں کوئی کمنٹس نہیں کروں گا، پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے لیے بھارت کی طرف سے بہت لابنگ کی گئی تھی۔ بھارت چاہتا تھا کسی طریقے سے پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ آرمی چیف کی ہدایت پر 2019 میں حکومت کی درخواست پر جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ میں ڈی جی ایم اوکی سربراہی میں ایک سپیشل سیل قائم کیا گیا تھا۔ اس سیل میں تیس سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان رابطے کا میکنزم بنایا۔ اور ہر پوائنٹ پر ایک ایکشن پلان بنایا۔ اس سے ان محکموں، وزارت اور ایجنسیوں سے عملدرآمد کروایا۔ اس سیل نے دن رات کام کیا۔ اس پر منی لانڈرنگ اور ٹرر فنانسنگ پر تمام اداروں نے کام کیا اور اس کے بعد قانون سازی کی گئی، فٹیف کی 27 میں سے 26 شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر)پرویزمشرف کی صحت بہت خراب ہے، اللہ تعالی انہیں صحت دے، آرمی لیڈرشپ کاموقف ہے کہ ان کو پاکستان واپس آجانا چاہیے، ان کی فیملی سے رابطہ کیا گیا ہے، سابق آرمی چیف کی واپسی کا فیصلہ ان کی فیملی نے کرنا ہے۔ فیملی کے جواب کے بعد انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان کے ڈاکٹرز کی مرضی سے بھی ہو گا کہ ڈاکٹرز انہیں سفر کی اجازت دیتے ہیں۔